کیا شہریوں پر بمباری کرنا دہشت گردی نہیں ہے؟

نومبر کے مہینے میں صوبہ قندوز  میں غاصب افواج کی بمباری کے نتیجے میں بچوں، خواتین اور مردوں کی شہادت استعمار کی پیشانی پر ایک اور سیاہ دھبہ رکھی۔ اس ظلم نے نہ صرف ان کے بربریب بھرے چہرے کو ایک بار پھر دنیا کے سامنے پیش کردی، بلکہ ان کے انسان دوستی کے دعوؤں […]

نومبر کے مہینے میں صوبہ قندوز  میں غاصب افواج کی بمباری کے نتیجے میں بچوں، خواتین اور مردوں کی شہادت استعمار کی پیشانی پر ایک اور سیاہ دھبہ رکھی۔ اس ظلم نے نہ صرف ان کے بربریب بھرے چہرے کو ایک بار پھر دنیا کے سامنے پیش کردی، بلکہ ان کے انسان دوستی کے دعوؤں کو بھی من گھڑت ثابت کردی۔

یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ افغانستان میں امریکی اور دیگر استعماری افواج اس طرح عظیم انسانی جرم کے مرتکب ہورہے ہیں۔ گزشتہ پندرہ سالوں میں افغانستان نہتے اور مسلمان عوام ایک ایسے بہانے اور عنوان کے تحت عالمی سپرطاقت کے اسلحہ اور بارود کے شعلوں میں جھلس رہے ہیں، جس میں افغانی ملوث ہیں اور نہ ہی تاحال غیرجانبدار تحقیقات ہوئے ہیں، مگر دنیا مشاہدہ کررہی ہے کہ نہتے افغان عوام روزانہ اپنے ہی ملک میں بیرونی اور ان کے کٹھ پتلیوں کے دہشت  اور مظالم کے شکار ہورہے ہیں۔ کیا اندھیرے کی خاموشی میں گہرے نیند سوئے ہوئے بچے اورخواتین کو بستروں میں شہید کرنا اور جنازے و شادی کی تقریبات پر بمباری کرنا، دہشت گردی نہیں ہے؟ کیا عوام کے گھروں اور باغوں کو مسمار کرنا،جن کی زندگی کا واحد ذریعہ  معاش ہے، دہشت گردی نہیں ہے ؟

دشمن کا یہ دعوہ بھی بےبنیاد ہے کہ مجاہدین عوام کے گھروں میں چھپ جاتے ہیں۔ اس کے برعکس امارت اسلامیہ کے مجاہدین ملک کے طول و عرض کھلے میدانوں میں استعمار اور اس کے کٹھ پتلیوں سے لڑ رہے ہیں۔ اگر وہ ہلمند میں ہو، قندوز، بغلان، قندہار، پکتیا، ننگرہار….. اور یا ملک کے دیگرے صوبے میں، روزانہ شجاعت اور قربانی کے عملی نمونے پیش کررہے ہیں، مگر اس کےباوجود دشمن کی جانب سے رات کے چھاپوں، بزدلانہ حملوں کے معنی یہ ہیں، کہ استعمار اوراس کے ملکی کٹھ پتلیوں نے امارت اسلامیہ کے مجاہدین سے دوبدو لڑائی میں حوصلہ اور محاذآرائی کھودی ہے۔

ہرشخص کو بخوبی معلوم ہے کہ افغانستان میں غاصب ممالک تمام بین الاقوامی قوانین کے خلاف افغانستان پر قابض ہیں۔ وہاں ایک ایسے نظام کو عوام پر مسلط کیا ہے ،جس کے کابینہ کے اکثریت اعضاء بیرونی ممالک کے شہری ہیں  اور ان کے خاندان بیرون ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔ ایسے افراد سے تو توقع نہیں کی جاسکتی، کہ اپنے ملت پر رحم دل ہوکر  بیرونی افواج کے مقابلے میں ان کا دفاع کریں۔ ان کے اقتدار کا دوام اس سے منسلک ہے کہ استعمار کو خوش رکھے اور اس کے حکم کو مان لیں، مگر ہم غاصبوں کو بتاتے ہیں کہ تمہارے مظالم اور جارحیت کے خلاف اپنے ملت اور ملک کے استقلال اور نظریے سے دفاع ہمارا قانونی حق ہے، جو ایسا ہی جاری رہیگا۔ تم اس طرح وحشت اور ظلم سے ہمارے ملک میں اپنے ناجائز اہداف تک نہیں پہنچ پاؤگے اور یا ملت کو مجاہدین سے علیحدہ کروگے، بلکہ تمہاری مظالم افغان مسلمان عوام کے نفرت اور مجاہدین کی صفوف کی استحکام اور محکم عزم کا سبب بنے گا۔

ہماری مایہ ناز سرزمین میں جارح غاصبوں کی مظالم اور جبر وستم اور آخر میں ان کے رسواکن شکست تمہارے لیے عبرت اور تنبہ ہے۔