کیا نئے چہرے ان کی مرضی سے صورتحال پر قابو پاسکتے ہیں؟

آج کی بات کابل انتظامیہ کے سربراہ نے بگڑتی ہوئی صورتحال کو قابو کرنے اور سنبھالنے کے لئے وزیروں کے نام پر کچھ مکروں چہروں کو ادھر، ادھر کر کے تبدیل کر دیا ہے۔ وزیر دفاع ، وزیر داخلہ اور دیگر وزارتوں کے تعارفی اجلاس میں اشرف غنی نے تشدد پر مبنی اپنی پالیسی کا […]

آج کی بات
کابل انتظامیہ کے سربراہ نے بگڑتی ہوئی صورتحال کو قابو کرنے اور سنبھالنے کے لئے وزیروں کے نام پر کچھ مکروں چہروں کو ادھر، ادھر کر کے تبدیل کر دیا ہے۔
وزیر دفاع ، وزیر داخلہ اور دیگر وزارتوں کے تعارفی اجلاس میں اشرف غنی نے تشدد پر مبنی اپنی پالیسی کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ طالبان نے جنگ شروع کی ہے لہذا صلح بھی وہی لوگ کریں گے اور ان کے آئین کی پاسداری کریں گے!
جہاں تک موجودہ صورتحال کا تعلق ہے اور افغان عوام اور دنیا صورتحال کو قریب سے دیکھ رہی ہے، امارت اسلامیہ کے دباؤ کے بغیر کابل حکومت کا فوجی اور سیاسی ایوان لرز اٹھا ہے، فوج اور سکیورٹی فورسز کے مابین رابطے اور ہم آہانگی کی لائن ہل گئی ہے اور فضائیہ بھی غیر موثر ہو کر رہ گئی ہے۔
ان مخدوش حالات سے اب یہ صورتحال پیدا ہوگئی ہے کہ سیکیورٹی چوکیاں اور فوجی اڈے تو معمول کی بات ہے، اب آئے روز دو / تین اضلاع بلکہ متعدد اضلاع تمام تر حربی وسائل کے ساتھ کسی خاص دباؤ کے بغیر امارت اسلامیہ کے زیر کنٹرول آرہے ہیں اور سیکورٹی فورسز کے اہل کار جوق در جوق شمولیت اختیار کررہے ہیں۔
اگر اشرف غنی واقعتی ملک کے صدر اور مسلح افواج کے کمانڈر انچیف ہیں، تو عوام کے دشمن چہروں کو تبدیل کرنے یا سبکدوش ہونے والے عہدیداروں کو تمغے پیش کرنے کی بجائے انہیں یہ سوچنا چاہئے تھا کہ کمانڈوز اور دوسرے فوجی جن پر 20 سال کے دوران امریکہ اور نیٹو نے اربوں ڈالر خرچ کیے تھے، معمول کے دباؤ کے ساتھ فوجی اڈوں اور اضلاع کو چھوڑ کر راہ فرار کیوں اختیار کررہے ہیں اور چند گھنٹوں کی مزاحمت کے لئے بھی تیار نہیں ہیں؟
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ یہ حکومت، اس کی فوج اور اس کے حکام سبھی امریکہ اور نیٹو کی جارحیت کی ضرورت تھی، انہوں نے اپنے مفادات کے لئے انہیں تربیت دی اور ان کی پرورش کی تھی، افغانستان کے مفاد اور ضروریات کے لئے نہیں۔ اس لئے جب امریکہ اور نیٹو نے فوجی انخلا کا عمل شروع کر دیا تو ان کی تشکیل کردہ فوج اور فورسز نے بھی فیصلہ کیا کہ ان کی ڈیوٹی اور ذمہ داری ختم ہوچکی ہے ۔
اشرف غنی اور ان کی حکومت چاہے وہ اب جتنی بھی کوشش کریں، ہر ہفتے وزارتوں میں نئے وزراء کی تقرری کریں اور فوجی اڈوں پر نئے کمانڈرز کا تقرر کریں، یہ ایک نمائشی اعلان ہوگا اور کچھ نہیں۔
وہ عملی طور پر کچھ نہیں کر سکتے! حکومت کے سابق وزیر دفاع اسد اللہ خالد کی طرح یہ نئے حکام صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے راہ فرار اختیار کریں گے! ان شاء اللہ
و ما ذالک علی اللہ بعزیز