کابل انتظامیہ کی ناکام قوت آزمائی

گزشتہ برس 28 نومبر سے 03 دسمبر 2016 ء تک کابل سے معروف صحافیوں اور تجزیہ نگاروں نے دوحہ شہر میں امارت اسلامیہ کے سیاسی دفتر کے نمائندوں سے  ملاقاتیں کیں۔ انہوں نے وہاں سیاسی دفتر کے نمائندوں کیساتھ موجودہ چند اہم مسائل کے متعلق گفتگو کی۔ کافی سوالات پوچھے گئے  اور سیاسی دفتر کے […]

گزشتہ برس 28 نومبر سے 03 دسمبر 2016 ء تک کابل سے معروف صحافیوں اور تجزیہ نگاروں نے دوحہ شہر میں امارت اسلامیہ کے سیاسی دفتر کے نمائندوں سے  ملاقاتیں کیں۔ انہوں نے وہاں سیاسی دفتر کے نمائندوں کیساتھ موجودہ چند اہم مسائل کے متعلق گفتگو کی۔ کافی سوالات پوچھے گئے  اور سیاسی دفتر کے منتخب وفد نے بھی انہیں وضاحتیں اور جوابات دیں۔ سیاسی دفتر کے وفد کی گفتگو میں اس بات کا تذکرہ بھی ہوا، کہ افغانستان سے امریکہ اپنی افواج کی انخلاء کا مختصر شیڈول کا اعلان کریں۔یہ اس راہ کو ہموار کریگی، کہ افغانی اپنے ملک میں اسلامی نظام کے قیام اور ملک کی آبادی کے لیے اکھٹے ہوجائیں۔ مگر اس وقت کابل انتظامیہ کے ترجمانوں اور ان کی جانب سے نامزد ہونے والے تجزیہ نگاروں نے کہا کہ سردی آنے والی ہے۔ سردی میں طالبان کمزور پڑجائیں گے۔ طالبان چاہتے ہیں،کہ سردیوں میں ان کے خلاف آپریشن نہ ہوجائے۔ ان کا اصرار تھا کہ آپریشن کا آغاز ضرور کیا جائے، تاکہ طالبان کچل جائیں اور آنے والے موسم بہار میں آپریشن کی قوت نہ رکھ سکے۔

کابل انتظامیہ  نے شفق دو کے نام سے امارت اسلامیہ کے مجاہدین کے خلاف آپریشن شروع کیا۔ مگر قلیل عرصے میں پیشرفت کے بجائے پسپائی پر مجبور ہوئے۔ اب ملک کے مختلف علاقوں میں محاصرے کی حالت میں ہیں۔ کابل ابلاغی ذرائع میں تازہ ترین ویڈیو رپورٹوں میں کابل انتظامیہ کے فوجی افراد اعتراف کررہے ہیں  کہ صوبہ ہلمند کے صدر مقام لشکرگاہ شہر میں پانچ سے دس میٹر کے فاصلے پر امارت اسلامیہ کے مجاہدین مورچہ زن ہیں، ان کی آوازیں سنائی جاتی ہیں۔ ان کے خوف سے رات اور نہ ہی دن کو سر اٹھاسکتے ہیں،حتی اپنی مورچوں میں بھی جھکنے کی صورت میں گھومتے ہیں۔ لشکرگاہ سقوط کا انتظار کررہی ہے۔

اب کھبی ایک ملک اور کھبی دوسرے ملک پر الزام لگارہاہے ، کہ طالبان کو جدید اسلحہ دی ہے۔ ہمارے نسبت طالبان کے پاس بہترین ہتھیار ہیں۔ قبل ازیں جب بھی امارت اسلامیہ کے مجاہدین کے مقابلے میں شکست سے روبرو ہوتے، تو کہتے کہ ہمارے خلاف بیرونی مسلح افراد اور جنرلز لڑ رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ا ہمیشہ ایسا ہی وہ اپنی شکست اور ناکامی کو جواز دیکر اسے  پوشیدہ کرنا چاہتا ہے۔

امارت اسلامیہ کے کسی کیساتھ فوجی تعلقات نہیں ۔  البتہ سیاسی روابط کے متعلق کہنا چاہتے ہیں، کہ امارت اسلامیہ افغانستان کا ایک عینی حقیقت ہے۔ایک مستقل طاقت کے طور پر دنیا کے مختلف ممالک سے اس کی تعلقات ہیں اور یہ تعلقات کافی عرصے سے ہیں۔ تعلقات کسی کے ساتھ وابستہ اور محدود نہیں ہیں۔ یہ امارت اسلامیہ کی قوت اور  تفہیم ہے۔اپنی مسلمان عوام کی نمائندگی اور اپنے اسلامی اور قومی مفادات کے لیے انہی تعلقات سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے اور اسے جاری رکھتی ہے۔

یہ کہنا ضروری ہے کہ افغانستان میں امن اس وقت قائم ہوسکتا ہے،جب استعماری ممالک اور ان کے داخلی حامی افغانستان کے زمینی حقائق کو تسلیم کریں۔ امارت اسلامیہ کو ایک عینی حقیقت کے طور پر  تسلیم کریں قائل  اور مزید ناکام اور  بےمعنی طاقت آزمائی سے دستبردار ہوجائے۔